گھر کے قرنطینہ

گھر کے قرنطینہ میں رہنے والے افراد کی سماجی زندگی پر ایک نظر

کرونا وائرس کے متعلق آخرین اخبار, متفرق خبریں

دنیا بھر میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیش نظر کئی ممالک میں تعلیمی ادارے بند ہیں اور لوگ  گھر کے قرنطینہ میں رہنے پر مجبور ہیں. اجتماعات پر پابندی ہے اور سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں دفاتر کے بجائے گھروں سے ہی کام کیا جارہا ہے۔

لوگوں نے احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے خود کو گھروں میں قرنطینہ کر لیا ہے جس سے ان کی سماجی زندگی بہت حد تک ختم ہوچکی ہے۔ قرنطینہ میں رہنے والے افراد کی زندگی کیسی ہوتی ہے یہ جاننے میں ہر کوئی دلچسپی لے رہا ہے۔

گھر کے قرنطینہ میں رہنے والے ان افراد کی یوں تو سماجی زندگی ٹھہر سی گئی ہے مگر وہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ایکٹو نظر آرہے ہیں اور اس وقت ٹوئٹر پر ’قرنطینہ لائف‘ کے ہیش ٹیگ سے ٹرینڈ چل رہا ہے جس میں لوگ قرنطینہ کی زندگی کے حوالے سے اپنے اپنا تجربہ شیئر کررہے ہیں۔

سوشل میڈیا صارفین ’ورک فرام ہوم‘ کے دوران پیش آنے والے دلچسپ واقعات پر تبصرے کررہے ہیں تو کچھ  کو گھر کے قرنطینہ کی بدولت اپنے پسندیدہ مشغلوں کے لیے وقت بھی مل گیا ہے۔

عابد رحمن نامی صارف نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ قرنطینہ کی زندگی نے لوگوں کو اپنی وہ صلاحیتیں جاننے کا موقع دیا ہے جن سے وہ لاعلم تھے۔

ایک انڈین صارف نے تصویر شیئر کی جس میں ایک گھر کے افراد خود کو محفوظ رکھنے کے لیے زیرزمین بنکر میں پہنچ کر خود کو الگ تھلگ کر لیتے ہیں۔ ٹشو رولز کے ڈھیر میں نظر آنے والے سربراہ خانہ سوال کرتے ہیں کہ ’کیا کوئی کھانے کے لیے کچھ لایا ہے؟‘

وینیسا سلی نامی صارف نے گھر سے کام کے پہلے دن کا احوال بیان کرتے ہوئے ہاتھ سے لکھی ایک تحریر شیئر کی۔ ساتھ ہی انہوں نے لکھا ’بیٹی نے میرے کام کے اوقات کا احترام کرتے ہوئے (بات کرنے کے بجائے) مجھے ایک نوٹ دیا ہے‘۔ ہاتھ سے لکھے جملے میں اجازت مانگی گئی ہے کہ ’کیا میں ببل گم کھا سکتی ہوں؟‘

ورک فرام ہوم یا گھر کے قرنطینہ کے دوران اپنی فٹنس سابق امریکی کھلاڑی اور برانڈ سٹریٹجسٹ کڈزی ٹیلر نے اپنے قرنطینہ کا تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھا ’آج کوئی فرد نہیں دیکھا جب کہ 10 ہزار 763 کیلوریز استعمال کیں۔‘

بہت سے افراد کے لیے قرنطینہ کے یہ لمحے اپنی زندگی کے روزمرہ کاموں کو ترتیب دینے کا موقع بن گئے۔ جیکی چائلڈز نامی مصنفہ نے اپنی ٹویٹ میں جوتوں کے ایک ریک کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ قرنطینہ کے تیسرے دن میں نے اپنے جوتوں اور اپنی زندگی کو منظم کرنا شروع کیا ہے۔

ایسے سوشل میڈیا صارفین بھی گفتگو کا حصہ رہے جو گھر سے کام کو مشکل قرار دینے والوں کی رائے سے متفق نہیں تھے۔ الیگزینڈر کوسوما نامی صارف نے لکھا ’ورکنگ فراہم ہوم ان لوگوں کے لیے سٹریس فل ہے جو کام کرنے کو گھر سے باہر جانے کا بہانہ سمجھتے ہیں۔‘

سوشل میڈیا پر مختلف اشاعتی اداروں اور فٹنس ماہرین کی جانب سے خود کو فٹ رکھنے کی تراکیب شیئر کی گئیں تو کچھ ایسے صارفین بھی سامنے آئے جو اس صورت حال سے ناخوش دکھائی دیے۔ اکشر پاٹھک نامی صارف نے لکھا ’ہر ایک ورک فراہم ہوم ٹپس شیئر کرتے ہوئے ’معمولات برقرار رکھنے‘اور ’لباس استعمال کرنے‘ کی تجاویز دے رہا ہے، لیکن حقیقی ٹپس کون شیئر کرے گا مثلا یوٹیوب دیکھتے ہوئے آلو بھجیا کو مکمل ختم ہونے سے کیسے روکا جائے۔‘

شعبہ طب سے وابستہ کوزوکی یوشیدا نامی ایک صارف نے ’ورکنگ فراہم ہوم‘ کے پہلے دن کا تجربہ ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ’ گھر کے قرنطینہ کا پہلا دن بہت برا گزرا۔ اہلیہ اور میں الگ الگ 11 بجے کی کالز پر تھے۔ ہمارے دو، تین اور پانچ برسوں کے بچے خوب دھما چوکڑی مچاتے رہے، دو کالز کے دوران سامنے آ گئے۔

ہم (میاں بیوی) نے کسی بھی جوڑے کے درمیان ہونے والی تمام لڑائیاں بھگت لیں۔ ہمیں اپنے کام کے اوقات بدلنے ہوں گے۔‘

کورونا کی وجہ سے لوگوں کے گھروں تک محدود رہنے نے آن لائن تجارت کو بڑھایا تو سوشل میڈیا صارفین اس کے ایک اور پہلو کا ذکر نکال لائے۔ جیف ولسن نامی صارف نے ورک فرام ہوم کا فائدہ گنواتے ہوئے بتایا کہ ’آپ گھر سے کام کر رہے ہوں تو کوئی ڈیلیوری مس نہیں ہو سکتی۔‘

احتیاطی اقدامات کے پیش نظر گھروں سے کام کو اختیار کرنے والوں کے علاوہ بہت سے شعبہ ہائے زندگی ایسے ہیں جو یہ سہولت استعمال نہیں کر سکتے۔ عام زندگی میں نظر انداز ہونے والے یہ پروفیشن بھی قرنطینہ زندگی کی گفتگو کا حصہ بنے۔ میتھیو تھامپسن نامی صارف نے لکھا ’دلچسپ بات ہے کہ کم صلاحیت کے حامل سمجھے جانے والے پیشے (صفائی، ڈیلیوری ڈرائیورز، ریٹیل اسسٹنٹس) کو عموما نظرانداز کیا جاتا ہے لیک اب یہی لوگ معاشرے کو جوڑے رکھنے والی فرنٹ لائن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ کم صلاحیتوں کی جابز نہیں بلکہ ضرورت ہیں، انہیں اتنا ہی معاوضہ ملنا چاہیے۔‘

گزشتہ برس دسمبر میں چین میں سامنے آنے والے کورونا وائرس کے نتیجے میں اب تک دنیا کے نصف سے زائد ملک متاثر ہو چکے ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد کورونا کا شکار جب کہ سات ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ کورونا کا حتمی علاج دریافت نہ ہو سکنے کے پیش نظر ماہرین احتیاطی اقدامات اختیار کرنے پر زیادہ زور دے رہے ہیں۔

 

ریفرنس: اردو نیوز