سپرپاور کی ذمے داری

سپرپاور کی ذمے داری : ظہیر اختر بیدری کا تجزیه

پاکستانی تجزیہ کاروں کا منتخب کالم

امریکا نے دس سال تک افغانستان میں ٹھوکریں کھانے اور اپنی فوجوں کے ایک بڑے جانی نقصان کے علاوہ اربوں ڈالرکے مالی نقصان کے بعد افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلا لی تھیں لیکن احتیاط کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے تھوڑی سی فوج افغانستان میں چھوڑ دی تھی اور کہا تھا کہ اس فوج کو بھی جلد واپس بلا لیا جائے گا۔

امریکا کی یہ بڑی دلچسپ مجبوری ہے کہ وہ کمبل کوچھوڑنا چاہتا ہے لیکن کمبل اسے نہیں چھوڑتا۔ ایک طویل جنگ اور بھاری نقصان کے بعد امریکی حکمرانوں کی سمجھ میں یہ آیا کہ اب طالبان سے مذاکرات کرنا چاہیئیں۔ چنانچہ مذاکرات کا آغاز ہوا اور یہ سلسلہ دراز ہوتا رہا۔

امریکی حکمرانوں خاص طور پر ٹرمپ جیسے حکمرانوں کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کو اپنی مرضی پر چلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ انھیں سخت مشکلات اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایک گھر کی آگ کئی گھروں تک چلی جاتی ہے۔ اب امریکی صدر کی وجہ سے یہ آگ ایران تک پھیل چکی ہے۔ ڈونلڈ  ٹرمپ ابھی ایران سے فارغ نہیں ہوئے کہ افغانستان میں چھلانگ لگا دی جیسا کہ ہم نے نشاندہی کی ہے افغانستان میں ہرات شہر میں ڈرون حملے کر کے 40 افغان شہریوں کو  قتل کر دیا۔ ساتھ میں 35 طالبان بھی جاں بحق ہوئے۔ ان کارناموں کے ساتھ  ٹرمپ کے اور کارناموں پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔

امریکا نے عراق کے دارالحکومت بغداد میں امریکی سفارت خانے پر مظاہرین کے حملے کے بعد ایران کو خبردار کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں فوری طور پر 750 مزید فوجی تعینات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ خلیجی علاقے میں پہلے ہی سے 14000 فوجی موجود ہیں۔ یہ 750 فوجی ان میں شامل ہو جائیں گے۔ امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے گزشتہ روز اپنے ایک ٹوئیٹ میں بتایا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ کے براہ راست حکم پر آیندہ چند روز میں فوری طور پر فوجی اور فوری فوجی رسپانس کے اضافی دستے تعینات کیے جائیں گے۔

ترجمان پینٹاگون کے مطابق تعینات کی جانے والی نئی فوج امریکی صدر ٹرمپ کی براہ راست کمان میں ہو گی۔ ترجمان محکمہ دفاع نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی افواج کی تعیناتی امریکی اہلکاروں اور تنصیبات کے خلاف بڑھتے ہوئے خطرات کے خلاف جیسا کہ بغداد میں دیکھنے میں آیا کے  مد نظر مناسب اور احتیاط کی جا رہی ہے۔

ادھر افغانستان میں طالبان کی جانب سے کیے گئے حملوں میں 34 سیکیورٹی اہلکار جاں بحق ہو گئے جب کہ چھ زخمی ہو گئے۔ طالبان زیادہ سے زیادہ حصے پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔ طالبان نے حملے سیکیورٹی فورسزکی یونیفارم میں کیے، طالبان کو چیک پوسٹوں کے اندر سے حمایت حاصل تھی، جس کی وجہ سے وہ زیادہ نقصان کرنے میں کامیاب رہے۔ سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے 5 طالبان بھی جاں بحق ہوئے۔ طالبان اپنے زیر نگیں علاقے میں اضافے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ روزانہ کیے جانے والے حملوں میں فورسز اور شہری ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ان حملوں میں 34 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔

امریکا افغانستان سے ایک دہائی کے بعد اربوں ڈالر اور ہزاروں سپاہیوں کی جانوں کے زیاں کے بعد بڑی مشکل سے افغانستان سے نکل سکا ہے۔ اس تلخ تجربے کے بعد امریکا کو نئی الجھنوں میں نہیں پھنسنا چاہیے تھا لیکن امریکی صدر کو جنگوں سے بہت لگاؤ ہے جو کسی نہ کسی طرح جنگوں میں ملوث ہوتے رہتے ہیں۔ عراق میں آگ لگانے کے بعد اب  وہاں کردوں کا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ شمالی افغانستان میں طالبان کی طرف سے کیے گئے حملوں میں 34 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے اور 8 زخمی ہو گئے۔ طالبان ادھر روزانہ حملے کرتے ہیں اور روزانہ جانی نقصان ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔ ادھر صدر ٹرمپ نے ایران پر الزام لگایا ہے کہ وہ خطے میں عدم استحکام کی فضا پیدا کرنا چاہتا ہے۔

اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور کہا جا رہا ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کا امکان بلکہ قوی امکانات ہیں۔ حیرت ہے کہ ایک طرف مذاکرات کیے جا رہے ہیں تو دوسری طرف خطے ہی میں نئی خونریزی کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔

طالبان نے افغان چوکیوں پر حملے کر کے جو 34 افغان فورسز کو ہلاک کیا ہے کیا اس سے مذاکرات میں مدد مل سکتی ہے؟ اس کے برابر عراق میں جو خونریزی ہو رہی ہے اس سے ایک نیا محاذ کھلنے کے امکانات ’’روشن‘‘ نظر آتے ہیں۔

امریکا دنیا کی ایک سپر پاور ہے اور سپر پاور کی حیثیت خاندان کے ایک بزرگ کی سی ہوتی ہے۔ اس پر دنیا میں ہونے والی ناانصافیوں اور ظلم کو روکنے کی ذمے داری آتی ہے لیکن یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہماری سپر پار خود ظلم اور ناانصافی کا دھڑلے سے ارتکاب کر رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں دنیا میں امن و امان اور کمزور ملکوں کے تحفظ کا کیا امکان رہ جاتا ہے۔

ایران امریکا کے مقابلے میں ایک چھوٹا اورکمزور ملک ہے، وہ اسرائیل کی خطے میں ریشہ دوانیوں اور ظلم و ناانصافیوں کا سخت خلاف ہے، یہی اس کا جرم ہے اس جرم کی سزا میں اسرائیل ایران کا دشمن بنا ہوا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکا علاقے میں اسرائیل کی زیادتیوں کا سدباب کر کے علاقے میں امن و امان کی فضا پیدا کرتا لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہو رہا بلکہ امریکا نے اسرائیل کا محافظ بن کر خطے میں اسرائیل کو غنڈہ گردی کی کھلی چھٹی دے دی ہے جس کی وجہ علاقہ مستقل کشیدگی کا شکار ہو گیا ہے۔

طالبان کا اپنا ایجنڈا ہے اور قتل و غارت کا ماحول بنا ہوا ہے امریکا ایک طویل عرصے تک طالبان سے متحارب رہنے کے بعد اب طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے۔ طالبان کی تعمیر تشدد کے ماحول میں ہوئی ہے لہٰذا ان کی سائیکی میں تشدد داخل ہے، ایسی صورتحال میں بڑی طاقتوں کو بڑا دل کر کے ممکنہ حد تک امن کے حوالے سے آگے بڑھنا چاہیے۔ جب کسی گروہ کی کارکردگی میں موت اور زندگی ایک مذاق بن جائے تو ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بڑی رعایتیں دینی پڑتی ہیں۔ ایران ایک باوقار ملک ہے امریکا کو اسی تناظر میں ایران سے ڈیل کرنا چاہیے ورنہ خون خرابے کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے۔