ایران کچھ نہیں کرسکا

ایران کچھ نہیں کرسکا ؟ شاہد کاظمی کا تجزیه

پاکستانی تجزیہ کاروں کا منتخب کالم

قاسم سلیمانی کو نشانہ بنایا گیا۔ ایران کچھ نہ کر سکا ۔ امریکا تڑیاں لگاتا رہا۔ ایران کو معاشی لحاظ سے کمزور کردیا گیا۔ ایران کے اندر قدامت پسندی اور جدیدیت کے نام لیواؤں کے درمیان خاموش جنگ کروا دی گئی۔ دفاعی لحاظ سے ایران پر قدغن لگائی جاتی رہی۔ فقہی چھاپ ایران پر لگنا شروع ہوگئی۔ اپنے رہنماؤں پر عالمی پابندیاں لگوا لیں۔ لیکن ایران کچھ نہ کرسکا۔ امریکا و یورپ آئے دن نئی پابندیاں لگادیتے ہیں۔ امریکا نے ایران کو بدی کا محور قرار دے دیا۔ ایران دوسرا عراق ثابت ہورہا ہے۔ لیکن اب تک ایران کچھ نہ کرسکا۔

یعنی ہمارے پاس ایک طویل فہرست ہے ایران کی ناکامیوں کی۔ اور حالیہ تازہ ترین ایران کی ناکامی یہ ہے کہ ایران نے اپنے جنرل قاسم سلیمانی کا بدلہ لینے کےلیے ’’عملیات سلیمانی‘‘ کیا اور دو امریکی فوجی اڈوں کو عراق میں نشانہ بنایا۔ غیر جانبدار ذرائع امریکا کے نقصان کی تصدیق نہیں کررہے۔ چلیے جی خوشی مناتے ہیں، بھنگڑے ڈالتے ہیں، مبارکباد دیتے ہیں کہ ایران تو کچھ نہیں کرسکا۔ امریکا کا کوئی نقصان نہیں کرسکا۔ امریکا کو جھکا نہیں سکا۔ واہ واہ مزہ آگیا! کیا بات ہے کہ دو درجن میزائل مارے لیکن ایک امریکی فوجی بھی نہیں مارا جاسکا۔

یہ بطور اُمت ہماری پستی کی علامت ہے کہ ہم بغض ایران میں حب امریکا کا تمغہ سجائے بیٹھے ہیں اور اس پر شاداں و نازاں بھی ہیں۔ ہم قاسم سلیمانی کو نشانہ بنائے جانے کو فقہی و گروہی و علاقائی اختلافات کے ترازو میں ڈال رہے ہیں اور ایرانی حملے کو ناکام ثابت کرنے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔ یہی صورت حال رہی تو کل کو ایران جو اسرائیل کے مقامات کو نشانہ بنائے جانے کے بیانات دیتا رہتا ہے، اگر ایسا حقیقت میں کرگیا تو ہم شائد اس وقت بھی ایران کے اسرائیل کے خلاف حملے ناکام بنادینے کا جشن منارہے ہوں گے۔ مجھے تو حیرت اس بات پر ہے کہ ہم تصور کیے بیٹھے ہیں کہ ہمارے دشمن امریکا و اسرائیل ہیں۔ ہم تو اپنے دشمن خود ہیں۔ قاسم سلیمانی کو راہ سے ہٹانے کےلیے آنے والے ڈرون پر کیا کوئی سنی شیعہ کا پرچم لہرا رہا تھا؟ داغے جانے والے میزائل پر کیا تحریر تھا کہ یہ میزائل شیعہ قاسم سلیمانی کو نشانہ بنانے جارہا ہے؟ اور اب اگر ایران نے میزائل داغے تو کیا ایران نے میزائلوں کو سمجھا کر بھیجا کہ تم صرف شیعوں کی طرف سے جارہے ہو؟

امت نامی غبارے سے ہوا ہم خود نکال رہے ہیں۔ ہم امت کو اپنی ذات تک محدود کر رہے ہیں۔ ’ ایران کچھ نہیں کرسکا ‘ کی بغلیں بجانے سے باہر نکلیے تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ آپ کس دنیا میں رہ رہے ہیں۔

ایران سپر پاور کے سامنے کم از کم کھڑا ضرور ہے اور یہ کھڑا ہونا ہی اہم ہے۔ بیس سے تیس سال قبل کی مضبوط ترین اسلامی طاقتوں عراق، شام، ترکی، ایران، پاکستان، لیبیا میں سے عراق، شام، لیبیا کو تو کھنڈرات میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔ ترکی کیوں کہ اکھڑ مزاج گھوڑا ہے، قابو میں کرنا مشکل ہورہا ہے۔ باقی بچ گئے ایران اور پاکستان۔ ایران پر حالیہ تنگ ہوتے گھیرے کو اک لمحے یہ سوچ کر دیکھیے کہ یہ ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہے۔ اگر تو ایران پر سلسلہ رک جائے اور باقی مسلم اُمہ کو ضمانت مل جائے کہ ستے وی خیراں تو ہم بھی جشن منا لیتے ہیں۔ لیکن اگر ایسا نہیں تو ہوش کے ناخن لیجیے۔

ایرائی میزائلوں نے جانی نقصان کیا یا نہیں؟ لیکن امریکی صدر یہ کہنے پر کیوں مجبور ہوگئے کہ وہ جنگ نہیں چاہتے۔ ضرب کاری لگی ایران پر کوئی شک نہیں، لیکن آپ اس حقیقت سے یکسر انکار کیوں کرتے ہیں کہ ایران نے مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کو کوئی ایسی چوٹ دی ہے جس کی وجہ سے امریکا اس انتہائی قدم پر مجبور ہوگیا۔ آپ اس میزائل حملے تک اپنی سوچیں محدود کرچکے ہیں۔ لیکن آپ لبنان، یمن، عراق، شام کی پراکسی وار کو نہ جانے کیوں بھول بیٹھے ہیں۔

ایران کچھ نہیں کرسکا لیکن ایسا اچانک کیا ہوا کہ امریکی اتنے اہم عہدیدار کو راہ سے ہٹانے پر مجبور ہوگئے؟ ایران کچھ نہیں کرسکا، تو کون ہے جس نے اتنے ناکوں چنے چبوا دیے کہ یہ مشکل فیصلہ کرنا پڑگیا؟

اسرائیل خود کو اس واقعے سے الگ قرار دے رہا ہے۔ امریکا جنگ نہیں چاہتا۔ روس کے صدر ولادی میر پوتن ایرانی حملے کے بعد شام و ترکی کے دورے پر جا پہنچے۔ فرانس کے صدر سے حسن روحانی کی گفتگو اہمیت کی حامل ہے۔ نیٹو بچے کچھے ممالک جن کی فوجیں عراق میں موجود ہیں، انہوں نے واپسی کا عندیہ دے دیا ہے۔ عراق ایک محکوم اور تباہ حال ملک کی پارلیمنٹ امریکی فوج کی واپسی کی قرارداد منظور کرچکی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ اور یہ قیمتیں بڑھنا مضبوط ترین ہونے کے دعویداروں کو بھی پریشان کررہا ہے۔ دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس تنزلی کا شکار ہوگئی ہیں۔ پھر ہم نجانے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ایران کچھ نہیں کرسکا۔

شدت پسندی کا ناسور عراق و شام کو قابو کرچکا تھا۔ آج وہ ناسور کہاں ہے؟ پراکسی وار جسے ففتھ جنریشن وار کا جدید نام دیا جاتا ہے، اس میں فاتح بن کر کون سامنے آرہا ہے مشرق وسطیٰ میں؟

ایران سے اختلاف بہت سے معاملات میں موجود ہیں اور رہیں گے۔ لیکن اس اختلاف میں دشمنوں کے ہاتھ مضبوط نہ کیجیے۔ ایران کے میزائل کسی امریکی فوجی کو مار پائے یا نہیں، اس خوشی کے بجائے اس بات پر بحث کیجیے کہ کم از کم مضبوط ترین دفاعی نظام کے باوجود اڈوں تک میزائل پہنچ گئے۔ مقابلہ ایک اور سو کے تناسب سے بھی ہو لیکن فرق یہ نہیں پڑتا کہ مقابل سو ہیں، یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جو ایک ہے وہ کھڑا ہے یا بھاگ گیا۔

آپ ایران سے اختلاف رکھیے لیکن بطور مسلم امہ کی اکائی امریکا کا ساتھ بھی نہ دیجیے۔ ایران کو خوب لعن طعن کیجیے لیکن اس لعن طعن کا رخ امریکی نقصان نہ ہونے کی خوشی کی طرف نہ موڑیے۔ امریکا آپ کو ایک ایک کرکے مار رہا ہے اور مارتا رہے گا، جب تک آپ خود مرتے رہیں گے۔

آج جو جو ایران کے خلاف امریکی اقدام پر خاموش ہے وہ جرم میں شریک ہے۔ ایران کے سعودی عرب سے اختلافات ہیں تو انہیں ختم کرنے کی سبیل سوچیے نہ کہ ایک دوسرے کو مار پڑتی دیکھ کر خوشی منانا شروع کردیں۔ ہمیں اپنی سوچ سے فرقہ واریت ختم کرنا ہوگی تب ہی یہود و نصاریٰ کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔

—————————-

پابلش آن ایکسپریس نیوز