تیسری عالمی جنگ کا امکان علی احمد ڈھلوں

کیا تیسری عالمی جنگ کا امکان ہے؟ علی احمد ڈھلوں کا تجزیہ

پاکستانی تجزیہ کاروں کا منتخب کالم

’’ٹکر کا مقابلہ‘‘ یعنی برابر کا مقابلہ، اس اصطلاح سے تو آپ بخوبی واقف ہوں گے کیوں کہ اسے ہر کھیل اور مقابلے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ریسلنگ میں بھی اس جملے کا استعمال عام ہے ، جب رنگ میں ’’ٹکر‘‘ کا مقابلہ ہو تو ہی شائقین بھی مقابلہ دیکھنے آتے ہیں ورنہ تماشبین اسے ون سائیڈڈ میچ قرار دے کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ آج دنیا میں بلکہ خصوصاََ پاکستان میں ایران امریکا تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے یہ اعلان سماعتوں سے ٹکرانے لگ گئے ہیں کہ جلد ہی تیسری عالمی جنگ شروع ہونے والی ہے۔

تیسری عالمی جنگ ہو سکتی ہے یا نہیں، میدان میں ’’ٹکر‘‘ کے حریف موجود ہیں بھی یا نہیں اور امریکا جنگ چاہتا بھی ہے یا نہیں پر بحث کرنے سے پہلے ہم پہلی اور دوسری عالمی جنگ کا مختصراََ جائزہ لیتے ہیں ۔

پہلی عالمی جنگ کو سب سے بڑی جنگ یا ایسی جنگ جو ساری جنگیں ختم کر دے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ جنگ عظیم اول کا آغاز یورپ میں ہوا۔ یہ  جنگ بیسویں صدی کا پہلا بڑا عالمی تنازع تھا۔ اس تنازعے کی ابتدا ہبزبرگ آرک ڈیوک فرانز فرڈنینڈ کے قتل سے ہوئی جو اگست 1914میں شروع ہوئی اور اگلی چار دہائیوں تک مختلف محاذوں پر جاری رہا۔ جنگ کا ابتدائی جوش و جذبہ اس وقت ماند پڑ گیا جب لڑائی ایک انتہائی مہنگی اور خندقوں کی جنگ جیسی شکل اختیار کر گئی۔ مغربی محاذ پر خندقوں اور قلعہ بندیوں کا سلسلہ 475 میل تک پھیل گیا۔ اس جنگ میں ایک طرف جرمنی، آسٹریا، ہنگری سلطنت، ترکی اور بلغاریہ اور دوسری طرف برطانیہ، فرانس، روس، اٹلی، رومانیہ، پرتگال، جاپان اور امریکا تھے۔ 11 نومبر 1918 کو جرمنی نے جنگ بند کر دی۔ اور صلح کی درخواست کی.

اسی طرح دوسری عالمی جنگ کا باقاعدہ آغاز 1ستمبر 1939 کو ہوا جب پولینڈ پر جرمنی حملہ آور ہوا اور برطانیہ نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ جرمنی نے جنگ کے پہلے دو سال میں بہت سی فتوحات حاصل کیں لیکن بعد میں اسے ہتھیار ڈالنے پڑے تھے۔ اس جنگ میں 61 ملکوں نے حصہ لیا۔ ان کی مجموعی آبادی دنیا کی آبادی کا 80 فیصد تھی اور فوجوں کی تعداد ایک ارب سے زائد۔ تقریباً 40  ملکوں کی سرزمین جنگ سے متاثر ہوئی اور 5 کروڑ کے لگ بھگ لوگ ہلاک ہوئے۔ جنگ کا سب سے ظالمانہ پہلو ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا کا ایٹمی حملہ تھا۔ جاپان تقریباً جنگ ہار چکا تھا لیکن دنیا میں انسانی حقوق کے نام نہاد ٹھیکے دار امریکا نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ صرف یہ دکھانے کے لیے کہ وہ طاقت میں کس قدر آگے نکل چکا ہے۔

اب آتے ہیں ’’متوقع‘‘ تیسری عالمی جنگ پر جسے میں ’’نان ایشو‘‘ سمجھتا ہوں، اس کی  وجہ یہ ہے کہ امریکا اور ایران کا آپس میں جوڑ نہیں ہے، یہ دونوں ممالک طاقت میں بالترتیب پہلے اور 31 ویں نمبر پر آتے ہیں۔ دوسری بات امریکا اور ایران کا فاصلہ 10 ہزار کلومیٹر ہے۔

تیسری بات امریکا، امریکا میں رہ کر پوری دنیا کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جب کہ ایران کے پاس محض درمیانے فاصلے تک یعنی ہزار پندرہ سو کلومیٹر تک وار ہیڈ لے جانے والے میزائل ہیں جن کی کوئی وقعت نہیں ہے اگر دونوں ممالک کی فوجی قوت کا اندازہ لگایا جائے تو ایک عالمی رپورٹس کے مطابق ایران میں پانچ لاکھ 23 ہزار فوجی ہیں جن میں سے ساڑھے تین لاکھ روایتی فوج میں جب کہ ڈیڑھ لاکھ پاسدارانِ انقلاب میں ہیں۔ اور اس کے مدمقابل امریکا کی فوجی طاقت دیکھیں تو ایران اور شمالی کوریا کے علاوہ دنیا کے ہر ملک میں یا اس کی سرحد پر امریکا فوجی اڈا یا انسٹالیشنز موجود ہیں۔

امریکا کے ملک سے باہر آٹھ سو فوجی اڈے یا ایکٹو انسٹالیشنز ہیں۔ جب کہ امریکا کے بعد سب سے طاقتور سمجھے جانے والے ممالک برطانیہ، فرانس اور روس کے کل ملا کر صرف تیس بیرون ملک اڈے ہیں۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ امریکا کے فوجی بازو عملی طور پر کتنے لمبے ہیں۔ امریکا کا سالانہ دفاعی بجٹ چھ سو پچاس ارب ڈالر ہوتا ہے۔ جو چین، روس، برطانیہ، فرانس، جاپان، سعودی عرب، اور بھارت کے مجموعی دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ معاشی لحاظ سے بھی امریکا سب سے اوپر ہے جب کہ ایران 80 ویں نمبر پر ہے۔ تو مختصر یہ کہ امریکا دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔

لہٰذا اپنی ہی سر زمین پر کرائے کے امریکی فوجیوں سے لڑنے کو ’’جنگ‘‘ نہیں کہا جاتا ، جنگ تو وہ ہو گی کہ ایک آدھ حملہ امریکا پر بھی ہو۔ ون سائیڈڈ جنگ تو نہیں ہوتی بلکہ حملہ ہوتا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ ایران یا اس علاقے کے مسلمان ممالک کے پاس ایسا کوئی ہتھیار نہیں ہے جو امریکا کو ہٹ کر سکتا ہے ۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ جس طرح ابوبکر بغدادی جاں بحق ہوا تو اُس کے سپاہی کلاشنکوف لے کر ڈھونڈ رہے تھے کہ اُن پر فائر کون کر رہا ہے۔ حالانکہ اُن پر فائر  7000 میٹر اوپر سے ہو رہا تھا۔ اسی طرح افغانستان پر امریکا نے حملہ کیا تو یہاں سے لڑنے کے لیے بھی بہت سے جہادی گئے تھے۔ پاکستان سے بھی ایک مولانا صاحب 10 ہزار کا لشکر لے کر وہاں گیا تھا، جب کہ وہاں تو ہتھیاروں کی لڑائی ہوئی ہی نہیں بلکہ میزائلوں کے حملے ہو رہے تھے، اس لیے بہت سے جہادی وہیں گرفتار ہو گئے، کچھ شہید ہوئے اور کچھ پاکستان واپسی پر دھر لیے گئے۔ لہٰذا موجودہ صورتحال میں میرا دل بھی چاہتا کہ میں ایران میں جا کر امریکا کے خلاف لڑوں، لیکن لڑائی لڑنی کیسے اور کس کے ساتھ ہے؟ اس لیے تیسری عالمی جنگ نہیں ہو سکتی، کیوں کہ کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے ۔

نائن الیون کے بعد کوئی ایک بھی قابل ذکر حملہ امریکا پر نہیں ہوا۔ حالانکہ نائن الیون حادثہ بھی کوئی اعلان جنگ نہیں تھا، بلکہ ایک دہشت گرد کارروائی تھی۔ اس لیے میرے خیال تیسری عالمی جنگ کا خطرہ دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا۔

ہاں البتہ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ اُس وقت ہو سکتا ہے جب روس اور امریکا ایک دوسرے کے سامنے آئیں گے، یا امریکا اور چین ایک دوسرے کے سامنے آئیں گے۔ یا چین اور روس مل کر امریکا سے لڑیں گے اور یہاں ایک اور بات بھی کہہ دوں کہ عراق، شام، ایران وغیرہ مل کر بھی امریکا سے لڑیں تو اسے عالمی جنگ بالکل نہیں کہا جا سکتا ، بلکہ یکطر فہ جنگ کہا جا سکتا ہے۔

اگر پاکستان کی بات کی جائے تو ہمیں بھی صورتحال کو بڑی سمجھداری سے آگے لے کر چلنا چاہیے۔ ہمیں جذباتی نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ دنیا میں کہیں بھی مذہب کی جنگ نہیں ہے بلکہ مفادات کی جنگ ہے۔یقین مانیں دنیا ہمارا اس وقت مذاق بنائے بیٹھی ہے کہ جب ہم اس طرح کہ بیانات داغتے ہیں کہ ہم اِس تنازعے میں فریق نہیں بنیں گے۔ آپ سے کس نے کہا کہ فریق بنیں؟ پاکستانی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ کس نے کہا ہے کہ پاکستانی سرزمین استعمال کرنی ہے؟ ایران پہ حملے کے لیے امریکا کو پاکستانی سرزمین کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں، اس کے سارے اڈے افغانستان میں موجود ہیں، اس لیے پاکستان اور افغانستان میں کیا فرق ہے؟۔ امریکی فوجیں کویت سے لے کر قطر تک تعینات ہیں۔ قطر میں بہت بڑا امریکی فوجی اڈہ موجود ہے۔ جس چیز کا کوئی خطرہ ہی نہیں اُس کے بارے میں ہم اتنے بہادر کیوں بن رہے ہیں؟

چی گویرا پاکستانی نہیں تھا لیکن اُس کی جواں مردی کا ہر آزادی پسند معترف ہے۔ چی گویرا کیوبا کا ہیرو نہیں رہا پوری دنیا میں حریت پسندوں کا ہیرو ہے۔ ویت نامی قوم کی اپنی جنگ تھی۔

ہوچی مِنہ اُن کے تاریخ ساز لیڈر تھے لیکن دنیا میں ویت نامی قوم کی بہادری مانی جاتی ہے۔ اُن کی امریکا مخالف جنگ کے قصے پڑھتے ہوئے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔

اس لیے ہماری پہچان ایک غیرت مند قوم کے ہونی چاہیے۔ خیر بات کہیں سے کہیں نکل گئی ، فی الوقت ہمیں شور شرابے سے زیادہ اپنے ملک کے حالات پر توجہ دینی چاہیے اگر کسی نے بلایا نہیں تو شاہ محمود قریشی کو بھی نہیں کسی ملک میں بھیجنا چاہیے ۔ کیوں کہ میں پھر یہی کہوں گا کہ فی الحال دنیا میں ایک چوہدری دوسرے چوہدری کو ڈرانے کے لیے اقدام کر رہا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے کیوں کہ امریکا کو فی الحال کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اورفی الحال امریکا کو ہماری ضرورت ہی نہیں ہے، جب ضرورت ہو گی تو دیکھا جائے گا۔ آخر میں یہی کہوں گا کہ کیاامریکا ہماری خدمات لے لے گا، لیکن بادی النظر میں اس کا امکان بھی نظر نہیں آ رہا! باقی اللہ اللہ خیر صلا!

پابلش آن ایکسپریس نیوز

——————————-

علی احمد ڈھلوں

ali.dhillon@ymail.com